یہ شہر ہی خانہ خراب سا ہے
ہر آنکھ میں دِکھتا آب سا ہے
ہنستا یہاں کوئی نہیں ملتا
ہر قلب میں اِک اضطراب سا ہے
ہر شخص ہے وہ خار لئے
جو دِکھتا حسیں گلاب سا ہے
ذلت و ظلمت ہے ہر جا حقیقت
بہاروں کا عالم خواب سا ہے
اُلٹی پڑ جاتیں ہیں سو تدبیریں
محبتیں کرنا یہاں عذاب سا ہے
نکلتا بھی نہیں یہاں سے دل
یہ جینا بھی کچھ نایاب سا ہے