خاک مے مل جائے یا مٹ جائے اس جہاں سے
زبان کا ذائقہ ہے جو نکلے گا زبان سے
جسم کو تقمیل کیا خدا کے نافرمانو نے
پھر بھی روح پرواز کر گئی جسم جان سے
زبان دیا ہے کسی کو میرا بھی کچھ وجود ہے
جو تیر نکلتا ہے واپس آتا نہیں کمان سے
عتاب کو خوشی کے چادر مے لپیٹ ڈال
کہ آ دیکھ سیرت کا غل تاثیر ترزمان سے
ملا ناشاد بدنصیبی بندگی کے بعد بھی
کوئی کب مانگتا ہے اب اس جہاں کےانسان سے
تعجب نہیں کوئی مجھے ایک سچ ہی تو کہا تھا
تصوف کا تصویر دکھایا تھا ایمان سے
درد غم کے محفل مے شریک تھا میں بھی
کبھی آنت کا پتا ملتا نہیں احسان سے
عطف عظیم نہ کر کبھی کسی سے اظہر
عرضمند بھی ہوتا ہے قلب کے ارمان سے