تم کو بظاہر مکمل نظر آتا انساں ہوں میں
خود زوال میں مبتلا داستاں ہوں میں
سب نے آزمایا کچھ اس طرح مجھ کو
جس طرح بادلوں میں چھپا آسماں ہوں میں
نہ جانے کس صبح کا چمن بنا بیٹھے ہو مجھے
اِک پُرانی بستی میں خستہ مکاں ہوں میں
مجھ کو سمجھتے ہو جانِ جہاں تم
بشرِ خاک تھا، خاکِ زماں ہوں میں
گل نے مجھ کو کچھ اس طرح ہے تڑپایا
یوں لگا، ظالم کے ظلم پر مہرباں ہوں میں
پیر کو جینے دو تم اے دنیا والوں
دو دن کی چاندنی پھر اندھیرا مکاں ہوں میں