خبر کيا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کر دے گا
کسی دن ديکھنا وہ آ کے ميری کِشتِ ويراں پر
اچٹتی سی نظر ڈالے گا اور شاداب کر دے گا
وہ اپنا حق سمجھ کر بُھول جائے گا ہر احساں
پھر اس رسمِ انا کو داخل آداب کر دے گا
نہ کرنا زعم اس کا طرز استدلال ايسا ہے
کہ نقشِ سنگ کو تحريرِ موجِ آب کر دے گا
اسير اپنے خيالوں کا بنا کر ايک دن محسن
خبر کيا تھی ميرے لیے کامياب کر دے گا