میں پرستش کا عادی ہوں، تو سیخ پا نہ ہوا کر
مٹی کا صنم ہے، خاک ہی رہ ، خدا نہ ہوا کر
میرے ہاتھ تو خالی ہیں قسمت کی لکیروں سے بھی
میرے جیسے بدنصیب کے لئے، تو باوفا نہ ہوا کر
وحشت دل کی آوارگی میں چین و سرور لٹا کر
گلی گلی پوچھتے پھرتے ہیں پتہ، تو لاپتہ نہ ہوا کر
ہماری تو عمر گزری، تیرے اک وعدے کے سہارے
او وعدہ شکن،تو کوئ تو وعدہ نبھا، بے وفا نہ ہوا کر
سکندر و دارا، زلیخا و یوسف، سب کہانی ہو گئے
تو چار دن کی جوانی پہ خود سر، اتنا نہ ہوا کر
شب ہجر چاہنے والوں پہ، قضا سی گزرتی ہے ناصر
تجھ بن گزارہ نہ ہو جن کا، ان سے جدا نہ ہوا کر