خدا نے پھر نہ پوچھا
جو کبھی کبھی کا سلسلہ
میرے لئے سجدہ نشین رہا
کیا بادلوں سے روٹھہ گیا
کیا فاصلوں سے ڈر گیا
کیا پانیوں میں بہہ گیا
تو کیا مجھ سے جدا ہو گیا
یوں ٹوٹا سورج ادھیڑ کر
یوں ٹوٹی دعائیں بکھیر کر
خدا نے پھر نہ پوچھا
منزلوں کو ساکن کر
پلکوں کی گود میں
جو رات بھر دھرا رہا
وہ نور فلک بوس ہوا
یا دھڑکنوں پہ ہرا رہا
خدا نے پھر نہ پوچھا
وہ جو رات بھر رقصاں رہے
خواب تیری پلکوں پہ
کیا ستاروں میں ڈھل گئے
یا چوکھٹ پہ ہی مر گئے
خدا نے پھر نہ پوچھا
شب گزاری کی آرزو لئے
وہ جو آنگن میں ٹھہرا تھا
چاندنی میں ڈھل گیا
یا گہنا کہ جل گیا
خدا نے پھر نہ پوچھا
تجھے واسطوں میں گھیر گھیر
جو ہوائیں صدقے جاتی تھیں
کیا بادلوں میں ڈھل گئی
یا آندھیوں میں گھل گئی
دل نے پھر چھیڑی کیا
تیری کمی کی داستاں
اب کس کروٹ پہ روتے ہو
خدا نے پھر نہ پوچھا