محفل میں ترے اور بھی تھے چاہنے والے
ہم سا کوئی دیوانہ نہ ہم سا کوئی سودائی
دل لے کے مرا درد کی دولت سے نوازا
سرکار نے قیمت نہ گرائی نہ بڑھائی
منصف کا پتہ ڈھونڈنے نکلی تھی ہوا تیز
وہ حبس پھرا شہر میں جیسے کوئی سودائی
خون تنا ترے کوچہ و بازار میں اے دیس
ھو ذکر ترا جان تو کہتے ہیں قصائی
مقتل میں مجھے اسنے نہ پہچن نہ جانا
منبر پہ جو کہتا تھا ہم بھائی ہیں بھائی
اے دیس مرے ظلم کا آئین بدلنے
انکار کا فرمان اتارے گی خدائی