خدایا اُس کو میری چاہتوں سے آشنا کر دے
نہیں تو مجھ کو ساری خواہشوں سے ماورا کر دے
زباں دے کر مجھے دیتا ہے کیوں حکمِ زباں بندی
دھڑکتا ہے اگر دِل تو اُسے بھی بے صدا کر دے
دیا ہے مشورہ اکثر مجھے دل نے ، محبت میں
نہیں ملتی پذیرایٔ تو جذبوں کو فنا کر دے
کٹے گی عمر کیسے ایک ہی چھت کے تلے آخر ؟
جو میرا ہمسفر ہے اُس کو میرا ہمنوا کر دے
وہ دشمن ہے تو کھل کر دشمنی پہ کیوں نہیں آ تا ؟
اگر وہ دوست ہے تو دوستی کا حق ادا کر دے
وہ مل جاۓ کہیں عذراؔ تو اُس کو یہ بتانا ہے
وہ چاہت ہی نہیں ہوتی جو پابندِ انا کر دے