خرد کو آ گ لگاؤ کہ شہر جلتے ہیں
جنوں کو کام لاؤ کہ شہر جلتے ہیں
یہ کون حشراتھاتا ہے حشر سے پہلے
انہی پہ حشر اٹھاؤ کہ شہر جلتے ہیں
ستم شعار امیروں کی بات رہنے دو
فقیہ وقت کو لاؤ کہ شہر جلتے ہیں
میرے مکان کا ملبوس ہیں خس و خاشاک
چلو نہ گرم ہواؤ کہ شھر جلتے ہیں
مثال مو جہء دریا وفا کے پانی سے
دلوں کی آگ بجھاؤ کہ شہر جلتے ہیں
تیرے وصال سے بہتر ہیں دوریاں شفیق
میرے قریب نہ آؤ کہ شھر جلتے ہیں