خط لکھ رہا ہوں حدِ محبت کو توڑ کے
کاغذ پر آنسوؤں کی جگہ چھوڑ چھوڑ کے
تو فکر مند کیوں ہے میرا دل توڑ کے
میں خود ہی جا رہا ہوں تیرا شہر چھوڑ کے
کل رات لکھنے بيٹھا غزل تیرے نام کی
الفاظ سامنے تھے کھڑے یوں ہاتھ جوڑ جوڑ کے
جس میں تمھارا عکسِ حسن دیکھتا تھا میں
تم نے تو رکھ دیا وہی آہینہ توڑ کے
یہ داستان اے زیست بھی کتنی طویل ہے
رکھنا پڑے ہیں مجھ کو کچھ ورق موڑ موڑ کے