خلاؤں میں معلق زندگی محسوس ہوتی ہے
مجھے ہر موڑ پہ تیری کمی محسوس ہوتی ہے
اجل سے کیا ڈراتے ہو شناسائی کی باتیں ہیں
مجھے یہ ہجر کی پہلی گھڑی محسوس ہوتی ہے
میں اکثر جان جاتا ہوں تمہاری ان کہی باتیں
تیری پلکوں پہ تھوڑی سی نمی محسوس ہوتی ہے
گلوں سے تتلیوں سے رنگ سے خوشبو سے شبنم سے
شکایت بے رخی کی دائمی محسوس ہوتی ہے
میری جاں جب بھی آتی ہو تبسم خیز لمحوں میں
یہ دھڑکن دل کی تیری چاپ سی محسوس ہوتی ہے
وہی خوش فہمیاں قائم ہیں میری آپ کی بابت
ابھی تک بے وفائی بے رخی محسوس ہوتی ہے
لئے پِھرتے ہو مٹھی میں میرے خوابوں کی تعبیریں
ستاروں س پرانی دوستی محسوس ہوتی ہے
وہی فرمان ہے تیرا، کہا جب مدعا دِل کا
تمہاری گفتگو اِک شاعری محسوس ہوتی ہے