اشک آنکھوں میں دل میں حسرتیں چھپی ہیں
کتنی تم سے کہہ دیں کتنی ہی باتیں ابھی انکہی ہیں
تم اپنی رونقوں سے نکل کے آؤ میرے اندھیروں میں
سنائیں تمہیں وہ افسانے سب ہی جو تم پے مبنی ہیں
ہم ہیں کہ بلکتے رہتے ہیں ایک جھلک کے لیے
اور ایک وہ ہیں جنہیں آپ میسر ہر حالت میں ہیں
وہاں گلے میں تمہارے بانہیں ہیں رقیب کی
یہاں تنہائیوں میں میری کانٹوں کے بستر ہیں
چھوتے ہیں ہاتھ اسکے جب بدن کو تمہارے
جھلس جاتے ہیں ہم کہ جیسے کسی آگ میں ہیں
کبھی محبت کا اعتراف کرو کسی کشمکش کے بغیر
اور کیا مانگا ہے تم سے یہ چار حرف ہی تو ہیں
معاف کر دینا دوسی کی خطاؤں کو اے ہمدم
کہ ہم شاید اب زندگی کے آخری ایام میں ہیں