زیست کے سرابوں میں
دل کے خوش رکھنے کو
دیکھتے ہیں خواب ہم سب
المیہ یہ ہوتا ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بے بسی کے عالم میں
ہار جائے جب قسمت
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
تقدیر کے کرشمے ہیں
دوست روٹھ جاتے ہیں
بے ضمیر لو گوں کے جبر کے تھپیڑوں سے
دل بھی ٹوٹ جاتے ہیں
ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑنے سے
سب کچھ دھندلا ہو جاتا ہے
خواب یوں بکھرتے ہیں، نصیب روٹھ جاتے ہیں
خواب ٹوٹ جائیں تو
سانس کا تعلق بھی ساتھ چھوڑ نا چاہے
ہر وفا کا داعی پھر منہ موڑ لیتا ہے
زندگی کی شمع تو
یوں ہی جلتی رہتی ہے
موت کے بگولوں تک
بے بسی کے عالم میں ٹمٹماتی رہتی ہے
حسرتِ تمنا بھی تلملاتی رہتی ہے
بے کسی کے عالم ہاتھ ملتی رہتی ہے
رفتگاں کی یادیں پھر، سوہانِ روح بنتی ہیں
خوں کے آنسو میں تر
نوکِ مژگاں حوصلے دلاتی ہے
دل کی دھڑکنوں سے پھر اک آواز آتی ہے
خواب سے جگاتی ہے
اور یہ بتاتی ہے
خواب دیکھنا چھوڑو
پیماں شکن سفہا سے
اپنا ناتہ خود توڑو
خار زار راہوں سے
اپنا رشتہ پھر جوڑو
زندگی حقیقت ہے اس کی معنویت سمجھو
خواب دیکھنا چھوڑو، ان کی اصلیت سمجھو
خواب ٹوٹ جاتے ہیں، ان کا روپ پہچانو
اے حریص نادانو
سبز باغ اور حسیں خواب دکھلا کر
راحت اور سکوں سب کا
لوگ لوٹ لیتے ہیں
حسرتوں کے مدفن کو
دیکھتے ہیں جب ہم لوگ
انکھیں پھوٹ جاتی ہیں
آنسوؤں کی برساتیں
دل کی ویراں وادی میں
بے ثمر رتوں میں بھی
زیست کے تلاطم میں
یہ سماں دکھاتی ہیں
پھر عذاب آتے ہیں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں