ان دیکھی راہوں کے راہی
خوابوں میں جیتے رہتے ہیں
زخموں کو سیتے رہتے ہیں
آہوں کو پیتے رہتے ہیں
کتنے ہیں انجان بچارے
آسودہ سادہ بنجارے
اتنی بات بھی جان نہ پائیں
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں
خواہش کے بےنام جزیرے
سوچوں کے رنگین پرندے
یادوں کے بے انت سمندر
لمحوں کے مخمور حوالے
پانی کی اک دھار کی صورت
اشکوں کی یلغار کی صورت
قطروں کی جھنکار کی صورت
آنکھ کے رستے بہہ جاتے ہیں
کچھ ظاہر کچھ راز کی باتیں
پیار کے سوزو ساز کی باتیں
دھڑکن کے انداز کی باتیں
سانسوں کی آواز کی باتیں
اپنے آپ میں رہنے والے
زخموں کو خود سہنے والے
لب پر لانے سے ڈرتے ہیں
شعروں میں سب کہہ جاتے ہیں
خواب ادھورے رہ جاتے ہیں
آنکھ کے رستے بہہ جاتے ہیں