خواب سارے یاد ہیں
عتاب سارے یاد ہیں
عمر بھر جن سے کھیلا
شباب سارے یاد ہیں
مجھ پر رہے جو مہرباں
احباب سارے یاد ہیں
قصے تیری بے رخی کے
جناب سارے یاد ہیں
گزری محبتوں کے مجھے
آداب سارے یاد ہیں
بوسے کے اک سوال پر
جواب سارے یاد ہیں
مرجھائے ہوے دل کے
گلاب سارے یاد ہیں
صحرائے ہستی میں جو گزرے
سیلاب سارے یاد ہیں
چہرے پہ ڈالے زلفوں کے
نقاب سارے یاد ہیں
تیرے بخشے ہوئے آج تک
عذاب سارے یاد ہیں
امید سحر پہ چھائے طاہر
سحاب سارے یاد ہیں