آنکھوں کے گِرے گواہ ہیں کہ یہ خواب سونے نہیں دیتے
منتظر ہیں اک جھلک کو کہ آنکھ اب بند کرنے نہیں دیتے
ارتحال کو جو رواں ہوں دل پاوُں سے لپٹ جاتا ہے
اب میرے حواس بھی تیرے شہر سے جانے نہیں دیتے
یوں تو پورا ہی شہر لیلیٰ مجنوں پے رشک کرتا ہے
مجھے اس کی گلی میں یہ لوگ کیوں جانے نہیں دیتے
سنا ہے چاند بھی اب اس کا پہرہ دیتا ہے رات بھر۔
تارے بھی اس کے صحن سے کسی کو گزرنے نہیں دیتے
سہل جائیں گے سبھی کڑے امتحان بھی بندشوں کے
قفسِ قید سے جو مجھے اس کی طرف جانے نہیں دیتے
لاحاصل ہی رہا عمر بھر ہمیں اک نظر کا دیدار
رخ یار سے اب میرے پاوُں بھی پلٹنے نہیں دیتے
ضم کر گئی مجھ میں اب تیرے شہر کی رعنائی
رات ہوتے ہی یہ جگنوں مجھے اب کہیں جانے نہیں دیتے
اس کے شہر کے لوگوں میں بھی اسی کے رنگ ہیں عامرٓ
اس کا ہو کہ بھی اس کے قصے اب سنانے نہیں دیتے