وہ خواب تھا یا سراب تھا میری زندگی کی کتاب تھا
جو نا مل سکا مجھے آج تک میری جستجو میری پیاس تھا
اسے چاہ کر بھی نا پا سکی اسے روک کر نا بلا سکی
دل بے خبر اسے بھول جا وہ گئے دنوں کا عذاب تھا
اسے الوداع بھی نا کہہ سکی اس سے ہاتھ بھی نا ملا سکی
جو چلا گیا مجھے چھوڑ کے وہ میری طلب میری آس تھا
میں تو سکھیوں کے ہجوم میں یو نہی تنہا تنہا پھرونگی
اب جو جاتے جاتے کہہ گیا نا سوال تھا نا جواب تھا