خوابوں سے آج کل وہ گزر تو نہیں رہا
اس کا خیال دل سے اتر تو نہیں رہا
یوں مت بگاڑیے میرے طرز عمل کو آپ
ویسے ہی میں خاموش ہوں ڈر تو نہیں رہا
کیسا گھڑا ہے جس میں کوئی چھید بھی نہیں
میں کب سے بھر رہا ہوں یہ بھر تو نہیں رہا
تو رہ رہا ہے شوق سے خوش فہمیوں میں رہ
میں جی رہا ہوں بن تیرے مر تو نہیں رہا
سب مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ گھر جاؤ اب عدیل
گھر جاؤں کس طرح میں مرا گھر تو نہیں رہا