خواہشوں کے بھنور
Poet: Muhammad Moazzam Akhlaq By: Muhammad Moazzam Akhlaq, Dubaiاپنے خواہشوں کے بھنور
اپنے گرد لپیٹے
دور ساگر کے اس پار
ڈوبتے سورج کی آخری کرن کو
اپنی منزل سمجھ بیٹھی ہوں
مگر یہ کیا
یہ آخری کرن بھی میری نظروں سے
اوجھل ہوگئی
اور پھر
نئی منزل کی تلاش میں
رات بھر خواب
آنکھوں میں سجائے
یھ سوچتی رہی
کہ ان طویل مسافتوں میں
آخر کب تک
میں تنہا چلوں گی
مگر
یہ یقیں ہے مجھے
کہ روشنی ہی میری منزل ہے
دیکھو
سورج کی پہلی کرن کو
پھر ایک امید
لے کے آئی ہے
شاید
یہی میری منزل ہے
مگر یہ کیا
اس قدر روشنی؟
میری آنکھوں میں اندھیرا کیوں چھا گیا
میری منزل
میری نظروں سے اوجھل کیوں ہوگئی؟
یہ زندگی
اس قدر بوجھل کیوں ہوگئی
آخر
اس خواہشوں کے جزیرے میں
کنارہ کیوں نہیں ہوتا؟
ہم جسے چاہتے ہیں
ہمارا کیوں نہیں ہوتا؟
آسماں کی بلندیوں میں
زمیں کی گہرائیوں میں
میں ڈھونڈ رہی ہوں جس کو
خود اپنی تنہائیوں میں
اک پرچھائی سی ہے
جو میری پہنچ سے
بہت دور ہے
میں
کسی کو دوش کیوں دوں
ہر کوئی اس جہاں میں
بہت مجبور ہے






