خواہشوں کے نگر نے پاگل بنا دیا
آوارگی کے شوق نے بادل بنا دیا
تھا راستے میں اسکے پھولوں کا سلسلہ
پل بھر کی نفرتوں نے جنگل بنا دیا
میں کیوں کروں شکایت وہ میرا نہں ھوا
نظروں میں تھا سمایا پر اوجھل بنا دیا
بکھرے ھوئے وجود کو سمیٹوں تو کسطرح
دیوانگی کی حدوں نے اسے ساحل بنا دیا
میرے لکھے پیغام وہ جلا کےخوش ھوا
یوں اس نے ادھورے خط کو مکمل پنا دیا