خود اپنے گرد ہی پھرتے ہیں ہم آہستہ آہستہ
کہ زائر کرتے ہیں طوف حر م آہستہ آہستہ
بہت آسان ہے کاغذ پہ کوئی لفظ لکھ دینا
دلوں پہ نام ہوتے ہیں رقم آہستہ آہستہ
کہیں پاؤں نہ تیرے کاٹ لے یہ برق رفتاری
مسافت میں اٹھا اپنے قدم آہستہ آہستہ
کہانی تو سنا کر داستاں گو ہو گیا رخصت
ہوئی ہے شہر بھر کی آنکھ نم آہستہ آہستہ
ابھی تو ہجر کے پہلے دکھوں نے دستکیں دی ہیں
سرایت خوں میں کرتا ہے یہ سم آہستہ آہستہ