خود اپنے گرد ہی پھرتے ہیں ہم آہستہ آہستہ

Poet: rafiq sandeelvi By: rashid sandeelvi, islamabad

خود اپنے گرد ہی پھرتے ہیں ہم آہستہ آہستہ
کہ زائر کرتے ہیں طوف حر م آہستہ آہستہ

بہت آسان ہے کاغذ پہ کوئی لفظ لکھ دینا
دلوں پہ نام ہوتے ہیں رقم آہستہ آہستہ

کہیں پاؤں نہ تیرے کاٹ لے یہ برق رفتاری
مسافت میں اٹھا اپنے قدم آہستہ آہستہ

کہانی تو سنا کر داستاں گو ہو گیا رخصت
ہوئی ہے شہر بھر کی آنکھ نم آہستہ آہستہ

ابھی تو ہجر کے پہلے دکھوں نے دستکیں دی ہیں
سرایت خوں میں کرتا ہے یہ سم آہستہ آہستہ

 

Rate it:
Views: 713
07 Oct, 2011