خود بھی صیاد امتحان میں ہے
ایک ہی تیر اب کمان میں ہے
دھوپ اب آ گئی منڈیروں پر
صبح کا شور میرے کان میں ہے
دن مرا ڈھل گیا تو غم کیسا
دھوپ اب بھی بہت سی لان میں ہے
اس کو مجھ پر یقیں نہیں ہوتا
جانے وہ کون سے گمان میں ہے
آسماں کی طرف ہے اس کی نظر
جو بھی اب عمر کی ڈھلان میں ہیں
جو مکیں تھا کبھی مرے دل کا
آج کل غیر کے مکان میں ہے