خود سزا مانگی ہے اپنے قصور کے آگے
دل نکال کر رکھا ہے حضور کے آگے
یہ الگ بات کہ عاجزی شعار ہے اپنا
دنیا جھکتی ہے ورنہ میرے غرور کے آگے
تو جو بہت ہنسا ہے حال دل پر
تیرا ہنسنا ہے کیا اک مجبور کے آگے
گراں کیوں ہے میری نظر میں تحفہ خلد
رکھنا میرے محبوب کو کبھی حور کے آگے
عشق ازل سے ابد تک زندہ رہے گا
جنوں کی منزل ہے دوست شعور کے آگے
کوئی تجھ سے اس قدر ہے دور عیاز
کوئی دوری نہیں اس دور کے آگے