خود سے کرکے بےوفائی
اپنی ہستی آپ مِٹائی
پھر تو ملنی تھی تنہائی
پھر تو ملنی تھی رسوائی
ایک ذرا سی چوک ہوئی
عمر بھر کی وفا گنوائی
دو کشتیوں کے لالچ میں
اپنی لَٹیا آپ ڈوبائی
اپنوں سے دغا کر کے
غیروں سے جتا کے آشنائی
غیر کے در پہ جا جا کے
اپنی قسمت آپ گنوائی
ایسے شکوے کرنے سے
بس ہوتی ہے جگ ہنسائی
عظمٰی دل سے کہہ نہ کر
آہ تنہائی آہ رسوائی
خود سے کرکے بےوفائی
اپنی ہستی آپ مِٹائی
پھر تو ملنی تھی تنہائی
پھر تو ملنی تھی رسوائی