تو ہے کہاں تیری منزل ہے کہاں
بن جا تو رہروِ منزلِ رواں
نہ ڈر امتحاں سے نہ ہو پریشاں
بن جا تو خود امتحاں کیلئے امتحاں
نومید نہ ہو فصلِ گل سے مفلوکِ چمن
امیدِ بہار رکھ ہوتی نہیں ہمیشہ کے لیے خزاں
محوِ آفاق نہ ہو تو منزل کی تلاش میں
کہ تیری منزل زمیں نہیں ہے آسماں
نہ چل فرنگ کے نقش پر اے جواں
مسلماں ہے تو پیدا کر اپنے نشاں
پابند نہ ہوا جا اہلِ مغرب کے حکمرانوں کا
زندہ ہے تو جاری کر خود اپنے فرماں
تیری گردشوں سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا نہ بن جائے مہ ضو فشاں
قریب ہے تو بن جائے مہ کامل اے نوخیز
کوشاں رہ ابھی بننا ہے تجھے نیرِتاباں