خود کو اپنا رقیب دیکھا ہے
خواب کتنا عجیب دیکھا ہے
روز سولی سجائی جاتی ہے
روز چڑھتے غریب دیکھا ہے
کیوں نہ دیکھوں اداس چہروں کو
ان پہ لکھا نصیب دیکھا ہے
اب کہ دیکھو جنوں میں کیا گزرے
ایک سایہ مہیب دیکھا ہے
اب کہ دیکھو کہ جیت کس کی ہو
حق سے باطل قریب دیکھا ہے
ایک پاگل سدید تم جیسا
بنتے پھرتے ادیب دیکھا ہے