خود کو تیرے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا، اُس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
میری طرح، تُو نے شبِ ہجراں نہیں کاٹی
میری طرح، اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا
تُو دشنہِ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
تُو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
تھے کوچہِ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
اب یاد نہیں مجھ کو فراز اپنا بھی پیکر
جس روز سےبکھرا ہوں سِمٹ کر نہیں دیکھا