جب سے تجھے دیکھا تیرے سرکار ہوگئے
اپنا دل تجھے دے دیا تیرے حقدار ہوگئے
تیرا سراپا دیکھا غزل گوئی سیکھ لی
ہم آدمی تھے عام سے فنکار ہو گئے
ہم کو بھی زندگی سے بہت لگاؤ تھا
کچھ ایسے ملے زخم کہ ییزار ہو گئے
صحرا کی خاک چھانتے رہے تمام عمر
گردش میں رہے راہ کی غبار ہو گئے
دانستہ ہم سے ایسی نادانی ہو گئی
کہ اپنے ہی شہر سے فرار ہو گئے
پے در پے وار ہم پر یوں کار گر ہوئے
خود ڈھال بن گئے خود ہی تلوار ہو گئے