خود ہی سوال اور خود ہی جواب سا ہوں میں
جو نہ سمجھی گئی کبھی اُس کتاب سا ہوں
دیکھ جو جاؤ قریب سے کہ نایاب سا ہوں میں
وقت کے سہرا میں اُبراسہراب سا ہوں میں
کچھ دم کا ہوں مہمان حُباب سا ہوں میں
ابھی تو ہوں پاس تیرے ابھی دستیاب سا ہوں میں
آنکھوں سے بہتے آشکوں کا سیلاب سا ہوں میں
جو مسسل برستا رہا وہ آب سا ہوں میں
تدبیروں کے بنسبت ناکامیاب سا ہوں میں
بگڑے ہوئے نصیبوں کا جیسے حساب سا ہوں میں
کہیں بے آب ہوں تو کہیں سیلاب سا ہوں میں
اسیر مجھےِ زیست کی روانی گرد آب سا ہوں میں
بار بار نہ کہہ مجھ سے کہ قریب سا ہوں میں
جو نہ آؤں گا پھر ہاتھ وہ ثواب سا ہوں میں
کسی کے دل میں سما جاتا اپنا بھی درد زرا
اپنے ہی حاِل دل کا خود نقیب سا ہوں میں
اپنی ہی خوشبو سے محروم گلاب سا ہوں میں
حقیت ہو کر بھی کیوں مسعود خواب سا ہوں میں