خوش رہے سارا جہاں ہم تو چلے
محفل سے نکلے تو جانے اب کدھر کو چلے
شام سنگ لے آئی تنہائی کے عزاب
ابھی رات باقی ہے اف یہ عذاب تو ٹلے
صبح کی پہلی کرن رت جگوں کا نشان مٹا گئی ورنہ
ہم ہر رازّ دل سے پردہ اٹھانے کو چلے
عشق و عاشقی کے فسانے پڑھتے رہے سبھی مگر
الفت میں کون ہے جو مٹنے کو چلے
آشیانے کو آگ دکھا کر جلنے کا تماشہ دیکھتے رہے
تماشبین دہائی دینے کس کے نشیمن کو چلے
دھرتی پر جب ملا نہیں نشان اپنے ہی وجود خاکی کا
ہم نئی کہکشائوں میں اسے ڈھونڈنے کو چلے
فاصلے رکھ کر ملتے رہے ہم سے فرح وہ تو سدا
جانے کیوں اب دلوں کی سرحدیں مٹانے کو چلے