خوشو پھول رنگ اور تتلی
برستا بادل کڑکتی بجلی
چندھیا دیتی ہے آنکھوں کو
راکھ ارمانوں کی اڑتی
بیچ سمندر بھنور کی ذد سے
بچ پائے گی شکستہ کشتی
خون کی ہولی کھیل رہی ہے
دارالامن کہلاتی بستی
رشتوں سے اعتبار اٹھا تو
ہر نظر اجنبی ہے لگتی
خوف کے ہر سو سائے پھیلے
وحشت ہے ہر سمت ٹپکتی