خوشی لکھنا چاہوں تو غم لکھتا ہوں
اِسی خوف سے اب میں کم لکھتا ہوں
بھلا کر کروں کیا زمانے کے غم
ملا کر سبھی غم، صنم لکھتا ہوں
میں کچھ اور لکھوں یا نہیں بھی لکھوں
رُخِ یار پر ایک دم لکھتا ہوں
کبھی جو میں نے میں یا تُو ہو لکھا
ہمیشہ میں تجھ مجھ کو ہم لکھتا ہوں
مری شاعری کے اصولوں میں ہے
میں دشمن کو بھی محترم لکھتا ہوں
منافق ہوں اور سانپ زہریلے بھی
انہیں دوست میں ہر قدم لکھتا ہوں
ہو انسانیت زندہ دل میں کسی
میں اس شخص کو محتشم لکھتا ہوں
علیٓ ایک خواہش رہی باقی اب
دعا میں خدا سے حرم لکھتا ہوں