خوشیوں میں جینے کا خواب سوچ رکھا ہے
اور اُس پہ ملنے والا عذاب سوچ رکھا ہے
تُو ہر خوشی کا احساس ہے میرے لیے
مَیں دلٗ تجھے دل کا باب سوچ رکھا ہے
ہم آ شنا ہیں محبت کی نیکیاں کرنے کا
ملے گا کیا کیا ثواب ٗ سوچ رکھا ہے
یہ صدمے فرقت کے ٗ یہ لمحے جدائی کے
اِس وقت کو بڑا ہی نایاب سوچ رکھا ہے
جدائی کا ہر لمحہ مجھ پر زوال گزرتا ہے
تیرے ہجر کو بصورت روزِ حساب سوچ رکھا ہے
تُو کرتا جا بے رخی ٗ دیتا جا بے وفائی
ہم نے اس کا بھی جواب سوچ رکھا ہے
جب وقت ہمارا ہو گا ٗ تیرا مشکل گزارہ ہو گا
ہمیں چُننا ہے کیا ٗ انتخاب سوچ رکھا ہے