خول چہروں پہ چڑھائے ہوئے آ جاتے ہیں
لوگ کرتُوت چُھپائے ہوئے آ جاتے ہیں
گھر سے نکلے کوئی عورت تو ہوس کے پیکر
ہر طرف گھات لگائے ہوئے آ جاتے ہیں
جب بھی یاروں کی عنایات کا چرچا ہو تو ہم
زخم سینوں پہ سجائے ہوئے آ جاتے ہیں
کام کرنے پہ انہیں موت نظر آتی ہے کیا ?
وہ جو کشکول اٹھائے ہوئے آ جاتے ہیں
میری محفل میں مرے نعرے لگاتے ہوئے لوگ
نفرتیں دل میں چُھپائے ہوئے آ جاتے ہیں
میں زمانے کا ستایا ہوں مرے در پہ یونہیں
سب زمانے کے ستائے ہوئے آ جاتے ہیں
روز باقرؔ میرے مرقد پہ مرے ہی قاتل
شکل معصُوم بنائے ہوئے آ جاتے ہیں