حسرتِ دل سے داغا ہے میں نے جگر اپنا
ستموں نے تیرے مجھ پر ماپا ہے صبر اپنا
اس جہاں میں کون کس کا؟ کس کو ہے خبر
نا آشنا ہم سے رہا جو تھا لبِ جگر اپنا
کیا گِلہ اس سے وہ تو رسمِ دنیا سے ہے بے خبر
کیا سنائیں اس بے وفا کو یہ دردِ جگر اپنا
سانسوں سے تسلسل کیا ٹوٹا سب چھوٹ گیا
وقتِ نزع بیگانہ ہوگیا جانِ جگر اپنا
منزل پر پہنچنے کی تمنا تھی مجھ کو بہت خلش
کیا کریں خود ہی سے ہوگیا خونِ جگر اپنا