ایک لہجہ جو دلاسہ دیے رہتا ھے
ایک خیال جو کبھی رونے نہیں دیتا
خیالوں کے ساگر پہ جب آندھی چلتی ھے
کوئی دفاع کوئی پیام ریت ہونے نہیں دیتا
میں کیا سناؤں حالت زار دل کی
بہت خوددار ھے جو خود کو عیاں ہونے نہیں دیتا
ٹوٹ بھی جائے ڈالی سے یا بکھر جائے
پھولوں کا ساتھ ہوا کو آوارہ ہونے نہیں دیتا
زات کے زندان میں ہر شب جھانکتے ہیں
ایک آئینہ تعارف ھے جو عکس بوڑھا ہونے نہیں دیتا
مات دے جائے گی پربتوں کو بلندی حوصلے کی
تمنا مسیحائی کی ھے درد جو سونے نہیں دیتا