داستان حیات
Poet: dr.inayat ullah amir By: dr.inayatullah amir, lahoreزندگی تو نے نہ سنائی کہانی اپنی
کیسے برباد ہوئی بے داغ جوانی اپنی
وقت بے رحم نے توڑا مری ہستی کا غرور
دریائے حیات نے دکھلائی جو طغیانی اپنی
سوتے ہوئے کٹتے تھے شب و روز مرے
آہ بے اثر مری تھی نالے بے سوز مرے
اک حشر بپا تھا اس پر یہ تصور
فردا بھی مرا ہے سبھی امروز مرے
کیا بتاؤں کس طرح مجھے دنیا نے تھا گھیرا
ہر طرف خواہش کا جنوں حسرت کا تھا ڈیرا
روشنی جس کو میں سمجھا وہ اندھیرا تھا اندھیرا
ہوس اتنی بڑھی نہ رہا اپنا نہ تیرا
گناہ کرتے ہوئے میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا
دل وہ سیاہ کار شرمسار تو ہوتا ہی نہیں تھا
افسوس کہ تیری محبت کو میں سمجھا ہی نہیں تھا
احسان فراموش میں جتنا کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
آہ نادانی مری دل میں بٹھا بیٹھا تھا
لذت دنیا میں سب پونجی لٹا بیٹھا تھا
جسم میرا تھا کہ روح سے خفا رہتا تھا
بت خانہ تھا میں ہر جز میں خدا رہتا تھا
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






