داستان زندگی
Poet: kanwal naveed By: kanwal naveed, karachiشادی کارڈ مرزا صاحب کو دینے جو گئے رات میں
داستان زندگی سنا ڈالی ہمیں بات ہی بات میں
نظر اُٹھی ان کی جانب پر نہ جانے کیوں جھک گئی
بات زبان تک آئی تو آکر مگر زبان پر تھی رُک گئی
سنتا رہا خاموش میں جو بھی انہوں نے تھا کہا
اپنی داستان زندگی سے کیا یوں انہوں نے آگاہ
جیون ساتھی تو بن گئے ہم پر کبھی نہ ایک ہوئے
نمازی بنے تھے پنج وقتی پر کبھی نہ نیک ہوئے
سارے حق ادا کیے پر پیار نہ ہم سے کیا گیا
کھلا زخم رِستا رہا پر نہ ہم سے تو سیا گیا
کچھ اور نہیں تو چلو اضافہ خاندان ہوا
ہر سال ہمار ے گھر ایک نیا مہمان ہوا
ضروری ہے ضرور کرو میاں! جو رشتہ ازواج ہے
سہارا دو کسی عورت کو کہ مرد کی محتاج ہے
آدمی ہی تلوار ہے یہاں آدمی ہی میان ہے
مشرق ہے یہاں عورت مرد کا سامان ہے
سب سے باتیں کرو مگر تم بیوی سنگ چپ چاپ ہو
بے تکلف خود سے نہ کرو جیسے سخت گیر باپ ہو
میں آج کا نوجوان ہوں الگ ہے میرا فلسفہ
میں نے کہا مختلف ہے میرا آپ کا سلسلہ
میں نماز پڑھنے کے ساتھ نیک بھی ہونا چاہتا ہوں
اپنے جیون ساتھی سنگ ایک بھی ہونا چاہتا ہوں
بدل چکا ہوں آج میں بدلے سب میرے حالات ہیں
مرد ہوں کٹر مشرقی بدلے سب میرے جزبات ہیں
مثل مرزا صاحب بیوی سنگ رہتا اب چپ چاپ ہوں
شادی کے دو سال ہیں گزرے دو بچوں کا باپ ہوں
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






