انسان کہاں بھول پاتے ہیں
پھندوں میں جھول جاتے ہیں
اپنی زات پر تو کبھی
اپنے فیصلوں پر پچھتاتے ہیں
دیتے ہیں سزا خود کو
دوسروں کے گناہوں کی
دُہائی دیتے رہتے ہیں
اک پل پکڑی باہوں کی
اک داغ ہے تمہاری ذات کا
میری چادر ِ زندگانی پر
تم ہی ہو درد ایک
میری خوبصورت کہانی پر
بہت بھدے بہت بد نما بھی ہو
میرے حالات سے آگاہ بھی ہو
میں اپنے وجود کو سمیٹ کر
میں اپنی زات کو لپیٹ کر
خواہ کیسا ہی کر لوں
تم کہیں نہیں جاتے ہو
مجھے ہر دم نظر آتے ہو
جیسے کوئی گناہ ہو
جیسے پیار بے پناہ ہو
جو روح کو ازیت دیتا ہے
جسے انسان اہمیت دیتا ہے
ایک داغ جو ختم سنگ زندگانی ممکن ہے
ایک داغ جو فقط سنگ میری کہانی ممکن ہے