داغے گئے اِس دل پہ نشانات سراسر
اپنے ہی تو کرتے ہیں عنایات سراسر
ڈرتےہیں وہ کانٹوں سے مجھے پھول سے ڈر ھے
ملتے نہیں دونوں کے خیالات سراسر
کیوں آتے ھو خوابوں میں مجھے رات ستانے
وہ ہم سے ہی کرتے ہیں شکایات سراسر
سوچیں! تو حقیقت میں عبادت ھے محبت
توحید پہ قائم ھے عبادات سراسر
توڑا ھے اسی ترکِ تعلق نے اسد کو
بے کار ھیں ناصح کی ھدایات سراسر