دبیز لہر کا پہرہ دکھائی دینے لگا ہے
تمام راستہ گہرا دکھائی دینے لگا ہے
سکوت ہجر نے ایسے مکان میں رکھا
یہاں ہر پہر ٹھہرا دکھائی دینے لگا ہے
میری سماعتیں محروم ہنگامہ کیا ہوئیں
ہر ایک فرد بہرہ دکھائی دینے لگا ہے
اندھیری شام اور سرد رات کا یہ نظارہ
حدوں کو چیرتا کہرا دکھائی دینے لگا ہے
جب سے آزاد ہونے کی تمنا دل میں جاگی ہے
ہر اک دروازے پر پہرہ دکھائی دینے لگا ہے
یہ جذبہ شوق اب اس مقام پر لے آیا ہے
کہ ہر چہرے میں وہ چہرہ دکھائی دینے لگا ہے
ہمارے شوق نے عظمٰی ہمیں بھی عام کر دیا
ہمارا بھی کہیں شہرہ دکھائی دینے لگا ہے