در امکان کھلا ہے مجھ میں
پاؤں خوشبو کا پڑا ہے مجھ میں
ختم ہوتا ہی نہیں میرا سفر
کوئی تھک ہار گیا ہے مجھ میں
پھول ہی پھول نظر آتے ہیں
شوق زنجیر ہوا ہے مجھ میں
اپنی ہر سانس گراں ہے مجھ کو
جب سے بازار لگا ہے مجھ میں
روز اول سے اندھیرے میں ہوں
چاند کیوں چیخ رہا ہے مجھ میں
اپنے اندر میں سمیٹوں کیا کیا
سارا گھر بکھرا پڑا ہے مجھ میں
اک نئی جنگ لڑا ہوں خود سے
دیر تک خون بہا ہے مجھ میں