در ، کوئی سلامت ہے نہ دیوار سلامت
حیران ہوں ، کیسے ہے یہ گھربار سلامت
صد شکرکہ اِس دور ِگرانی میں ابھی تک
دل میں ہے تمناوں کا بازار سلامت
ہر وقت جسے اپنی ہزیمت کا ہو خدشہ
رہتا نہیں ، وہ لشکر ِ جرار سلامت
کیوں دل ہوکسی دھوپ کےطوفاں سےہراساں
سر پر ہے مرے سایہ ء اشجار سلامت
یہ کیسے مرے شہر کے حالات ہوئے ہیں
محفوظ ، مسیحا ہے نہ بیمار سلامت
دشمن مجھےمغلوب کبھی کر نہ سکے گا
جب تک ہے مرا جذبہ ء یلغار سلامت
کیوں محفل ِعشرت کی طرب خیزفضا میں
یاور ہے مری روح کا آزار سلامت