درد الفت جدائی دو ہم کو
دل ہے ویران رعنائی دو ہم کو
اک مدت ہوئی ہے گریہ کو
مختصر سی تنہائی دو ہم کو
ایسی آواز دو ہم آجائیں
بن کے زندگی سنائی دو ہم کو
دل کو مرضوں سے پھر نجات ملے
نسخہ دید مسیحائی دو ہم کو
منہ پہ تازگی ہو گل جیسی
اک بار دکھائی دو ہم کو
ہر زباں پہ اپنے چرچے ہوں
ایسی دلکش رسوائی دو ہم کو
مسکراتی رہے یہ چشم نم
وہ ہیرے موتی بینائی دو ہم کو
بڑی فریاد ہے کسی اسیری کی
زلف کے بل سے رہائی دو ہم کو