درد بے شمار لیے بیٹھے ہیں
غم سا آزار لیے بیٹھے ہیں
عشق نے نکما کر دیا ہم کو
بس غم روزگار لیے بیٹھے ہیں
یاد آتا ھے کوئی ہمیں اپنا
دل بے قرار لیے بیٹھے ہیں
ایک غم ہو تو کوئی چارہ کیجیئے
غموں کے امبار لیے بیٹھے ہیں
نا خدائی کا اپنے دعوہ نہیں
ہاں مگر بیڑہ پار لیے بیٹھے ہیں
جب دل کو راس نہیں اپنے الفت
پھر کیوں بھار لیے بیٹھے ہیں؟
جس کے آنے کی امید نہیں
اسکا کیوں انتظار لیے بیٹھے ہیں؟
ڈر ھے ہم کو غم کی آندھی کا
دل اسلیئے کشا دار لیے بیٹھے ہیں
جینے کی امید چھوڑ کر اسد
موت کا انتظار لیے بیٹھے ہیں