دل کی آگ آنسو بھجا نہ سکے
پھول کانٹوں سے سینا بچا نہ سکے
قطرہ قطرہ میری آنکھوں سے کشید کر
پیاس من کی وہ بجھا نہ سکے
کیوں گلہ کروں میں بیوفائی کا
خزاں میں بہار کبھی آ نہ سکے
کسے ڈھونڈتے پھرتے ھو گلیوں میں
وہ چہرہ جو نظروں سے جا نہ سکے
آج شرمسار ھوں اپنی ہی نظر وں میں
ان کے کہنے پر بھی ان کو بھلا نہ سکے