وہ پوچھے میرا حال تو اس سے یہ کہنا کہ
چاند راتوں کو اب بھی کوئی دور افق پر تمہیں تلاش کرتا ہے
احساس کی ہر شاخ پر تیرا گمان گزرتا ہے
میرا تخیل تو منسوب ہر لمحہ تیرے ساتھ ہو گیا
زندگی کے ایسے دوراہے پر تو نے لا کھڑا کیا
جہاں سے واپسی ممکن نہیں اے ستم گر
تو سب جانتے ہوئے بھی میرے ساتھ یہ سب کر گیا
کاش روک لیتا اپنی خواہشوں کے سمندر کو
جس کی موجوں نے میری ذات کے سارے زاویوں کو نگل دیا