دل کو گھبرانا کب آتا ہے
وہ آتا ہے حوصلہ جاتا ہے
درد سے گریزاں کیوں ہوؤں
اسے پیارا کوئ سنوارتا ہے
مکاں کے اندر مکیں ندارد
ادھر کب کوئ دیکھ پاتا ہے
روح کے وحشی زخمی لوگ
جسم ہی انہیں سنبھالتا ہے
پھر کوئ قتل و حادثہ کی خبر
جب صبح کا اخبار آتا ہے
زرد پتے ہوئے زمیں بوس
سبز پتوں پہ درخت اتراتا ہے
رنگوں میں وہی رنگ دیکھوں
جو کینوس پہ صحیح بکھر جاتا ہے
جگ میں آکے یہ کچھ دیکھا
غم ہر جبیں پہ لہراتا ہے
اوپر سنہرے اندر کالے یار
ناصر ہر بار فریب کھاتا ہے