درد و غم کا شمار چاہوں میں
اپنے دل کی پکار چاہوں میں
اک خلا ہے وہ شخص ایک خلا
پھر اِسی کا مدار چاہوں میں
مانا تُو پیکرِ وفا ہے، مگر
خود کو کتنا اے یار چاہوں میں
عشق کا کاروبار کرنے کو
اک حسینہ اُدھار چاہوں میں
جاں، مجھے بھینچ لے تُو بانہوں میں
گرد اپنے حصار چاہوں میں
اِس بدن کی نہیں رہی خواہش
فقط اِس کا خمار چاہوں میں
دل کی جھولی میں آرزو ہی نہیں
زندگی کا قرار چاہوں میں
تُو بتا اب کسے پکاروں میں
اور کس سے فرار چاہوں میں
ہجر کی جانکنی تمام ہوئی
اک نیا پھر شکار چاہوں میں