درد کا ابرِ ستم ہے کم ہے
دشتِ تشنہ میں جو نم ہے کم ہے
دھڑکنیں سانس ابھی لے لیتی ہیں
ابھی اس دل میں جو غم ہے کم ہے
آسماں دیکُھوں! مری وحشت کو
کُرہ ء ارض تو کم ہے کم ہے
جان کنی میں بھی بڑھا تیری طرف
جو مرا ایک قدم ہے کم ہے؟۔
وصلِ دائم کے لیے ہجرِ زمیں
تم سے جو عہدِ ارم ہے کم ہے
ہر گھڑی بول کے نشتر بخشیں
یہ جو اپنوں کا کرم ہے کم ہے!۔
کوئی ہتھیار نہیں پر عاشی
تیرے ہاتھوں میں قلم ہے کم ہے